@Neelimachli#16 🇬🇧

نیلی مچھلی

❤️ Likes
show all
tarekdaud’s Profile Photo ZalimSher’s Profile Photo sheikhzakram’s Profile Photo Mishhee’s Profile Photo samkhan420’s Profile Photo rjsikandaryounas’s Profile Photo nainaawan6’s Profile Photo Nayabx0’s Profile Photo

Latest answers from نیلی مچھلی

Silence is probably the hardest part? Hush! Shhh!

deeda_dahi’s Profile PhotoXalaam
یہ جو ویرانی ہے
دل میں اداسی ہے
بے سبب یونہی
ایک اکتاہٹ ہے
ہے سبب اسکا بھی کچھ
کبھی جب سوچوں تو سو جواب ملتے ہیں
کبھی گھر کبھی بار
کبھی کاروبار ملتے ہیں
ایک جواب کے جسے میں اکثر چھپاتا ہوں
جواب کے جس پہ کبھی میں ٹیوب ویل کا پانی بہاتا ہوں
کبھی جامن کے درخت کی چھاوں کہتا ہوں
کبھی کہتا ہوں کے بچپن کی یاد ہے شائد
کے اکثر دوری خلیل سے لکھتا ہوں
کبھی اداسی کو نام دیتا ہوں کسی سرد موسم کا
کبھی لکھتا ہوں کے اداسی ہے یونہی بس شام کی
دل مگر چپکے سے کرتا ہے تسبیح جو تیرے نام کی
تو سمجھتا ہوں میں اسے اصلی سبب
سبب میری تمام اداس راتوں کا
باتوں کا
بس فقط ایک نام
تیرا نام
نیلی مچھلی

Do your surroundings communicate with you?! Like you are looking at the clock in your room and feeling like that clock is trying to tell you something...!

deeda_dahi’s Profile PhotoXalaam
گمشدگی بھی ایک مشغلہ ہے۔
یا شائد گمشدہ عمارتوں کی تلاش
ان میں چھپی کہانیاں جو کسی نے نا سنی ہوں۔ ان دیواروں سے لگ کے بیٹھنا جن سے قہقہے و سسکیاں بیک وقت سنی جاسکتی ہوں۔ جہاں دیوار کے اس پار صدیاں گزر چکی ہوں جہاں گھوڑوں کی ٹاپ انجن کی کھڑ کھڑ میں بدل چکی ہو
جہاں ظاہری طور پر تو کوئی نا ہو مگر سننے پہ بےشمار کردار سامنے آجائیں جہاں بس آپ ہوں اور ایک گزرا جہاں۔دن کا تھکا ہارا مزدور ٹوٹی چارپائی پہ آگرتا ہےجب
تو سب سے بہترین اور پرکشش آواز اس کے لیے پنکھےہی کی ہوتی ہے۔ اس کی گرچ گرچ یا گراریوں کی چوں چڑاک۔ پنڈی ہمارے ریلوے والے گھر کے چھت اونچے ہوا کرتے، پنکھا لمبے راڈ سے لٹکا ہوا نیچے تک آتا۔ میرے کمرے کا پرانا پنکھا بٹن دبانے پہ کھٹ کی آواز سے چلتا اور ایک دیھمے سے ردھم میں چوں چوں کرتا بھاگتا رہتا۔
اونچے چھت کے روشندان بھی اونچے جو گرمیوں میں کھول دیتا اگرچہ رات چاند تونظر نہیں آتا مگر چاندنی رہتی تھی۔ عجب معاملہ ہے کے تب پوری رات میں چاندنی اور پنکھا مستقبل کی باتیں کرتے۔ کبھی اگر چاندنی کا دل ہوتا تو وہ ہمیں کہانیاں سناتی۔ پرانی بہت پرانی کہانیاں قافلوں، مسافروں کی محبت بھرے دو پیار کرنے والوں کے قصے تو کبھی کسی قافلے پہ لٹیروں کی یلغار میں لٹتی عصمتوں کو بچاتے جوانوں کے لہوں کی کہانیاں، پنکھا جب کسی بات پہ آنسوں بہاتا تو اس آواز میں شدت آ جاتی۔ اس کی چوں چوں سسکیوں میں بدلتی تو میرا دل بہت نمناک و اداس ہو جاتا ہمارا یہ ساتھ بہت عرصے تک رہتا لیکن آہستہ آہستہ گرمیاں جانا شروع ہوتی تو سردیوں کا پہرا شروع ہوتے ہی کمرے میں پنکھا راج کم ہوتا جاتا اور دیوار پہ سجی گھڑی مہمان بن آ بیٹھتی، چاندنی اور میں کبھی اس کی آواز سے خوش نہیں ہوتے، اس کی ٹک ٹک میں ایک عجب خوف ہوتا ایک ڈر کے ابھی نقاب پہنے چند لوگ آ ٹپکیں شائد، میں اور چاندنی ہاتھ پکڑے چپ خاموش بیٹھے رہتے، سردیاں ہمیشہ اداس اور مشکل ہوتی تھیں۔ ہماری اداس رات پہ ہمیشہ گھڑی کا راج رہا اس کے دو ہاتھ دو لٹکتی تلواروں کے جیسے پوری رات ٹک ٹک ٹک۔
نیلی مچھلی ریلوے کا مکان
صدر، راولپنڈی۔

View more

"What goes around.... really goes around."

deeda_dahi’s Profile PhotoXalaam
ایک پرانی بات یاد آئی،
ہمارے گاؤں کے چار چفیرے برگد کے تقریبا صدی پرانے درخت ہیں، دن بھر وہاں کھیلتے تھے مگر شام کے بعد وہاں جانے سے جان جاتی تھی کیونکہ ان پر جن اور چڑیلیں ہوتی تھیں۔جمعرات کی رات وہاں آدھی رات کو چراغاں بھی ہوتا، شائد جنات مل کے کوئی جشن مناتے لیکن کوئی بھی اگر اس چراغاں کو دیکھ لیتا تو یا اس کی نظر چلی جاتی یاں اسکو جن چمٹ جاتے۔ اس لیے شام کے بعد بوہڑ والے کلے(کھیت ) جانے پر سخت پاپندی تھی۔ بابا فضل الہی مرحوم تو ایک دفعہ پکڑا بھی گیا جب وہ کھوں(کنواں) سے پانی لیے مڑ رہا تھا تو بوہڑ کے نیچے بیٹھے جن اسے آواز دے کر بولے فضل الہی آ جا حقہ پی لے، فضل الہی نے جب انکے الٹے پاوں دیکھے تو اپنے پاوں تلے زمین نا رہی مگر تھا عقلمند اور فورا لوہے کا سنگل نکال کے سامنے کیا تو جن گھبرا کے بولے نا فضلو تو جا آج، فضل الہی نے اگلی شام حویلی بیٹھ کے پورے محلے کو یہ بات سنائی اور رج کے اپنی بہادری کی داد لی۔ کچھ سال پہلے شام دادا جی کے ساتھ ٹیوب ویل سے واپسی پیدل آتے میں نے سوال کیا
ابا جی بچپن میں یہاں بوہڑ نیچے جن ہوتے تھے، اب کہاں گئے؟
مختصرا کہا
" کسی اور کے بچپن میں"

View more

+ 2 💬 messages

read all

What do you mean?

khanabadosh00786’s Profile Photoخانہ بدوش
آسماں کے چہرے پر بے شمار آنکھیں ہیں
بے شمار آنکھوں میں بے حساب منظر ہیں
منظروں کے آئینے اپنے اپنے چہروں کو خود ہی دیکھ سکتے ہیں
خود ہی جان سکتے ہیں اپنی بے نوائی کو
وسعتوں کی چادر پر سلوٹیں بہت سی ہیں
اس خموش دنیا میں آہٹیں بہت سی ہیں
آتی جاتی لہروں کا ازدحام رہتا ہے
وقت ایک خنجر ہے
بے نیام رہتا ہے
یہ عجیب دنیا ہے جس میں کچھ نہیں ملتا
پھر بھی ایک لمحے میں بے شمار تاریخیں
یوں بدلتی رہتی ہیں
جیسے خشک پتوں کا ڈھیر اڑتا پھرتا ہے
بے کنار سمتوں میں
بے شمار سمتوں میں بے شمار آنکھیں ہیں
کچھ نہیں ہے تکنے کو اور ہزار آنکھیں ہیں
راستوں کے دھاگے سے ہر طرف لٹکتے ہیں
خاک کے جزیرے سے
ہر طرف بھٹکتے ہیں
پھر بھی آسمانوں پر رات کے اندھیرے میں
صبح کے سویرے ہیں
یہ عجب معمہ ہے
جس طرف بھی ہم دیکھیں
ٹوٹتے ہوئے لمحے بھاگتے ہوئے رستے جاگتے ہوئے منظر
آئنوں کے اندر بھی آئنوں کے باہر بھی
ایک شور برپا ہے
جس کو ہم نہیں سنتے
اور وہ ہم سے کہتا ہے
تم بھی میرے جیسے ہو
میں بھی مٹنے والا ہوں تم بھی مٹنے والے ہو
آسماں کے چہرے پر بے شمار آنکھیں ہیں
بے شمار آنکھوں میں بے حساب منظر ہیں
منظروں کے آئینے
رنگ رنگ آئینے کے جواب منظر ہیں
منظروں کے اندر بھی صد ہزار منظر ہیں
وہ بھی مٹنے والے ہیں
ہم بھی مٹنے والے ہیں
شہزاد احمد

View more

+ 1 💬 message

read all

Language: English