چاندرات ہے،چوڑیاں اٹھائے بیٹھا ہے مہندی لگا کے پلکیں جھکائے بیٹھا ہے کیسے مناؤں گا میں عید اس دفعہ میرا چاند تو چہرہ چھپائے بیٹھا ہے اک ہلال ہے کہ خوشیاں بانٹ رہا ہے اوراک مہتاب ہے،منہ پھلائے بیٹھا ہے دید بنا بھی بھلا کوئی عید ہوتی ہے یہ دل پھر سے ضد لگائے بیٹھا ہے نیا جوڑا پہن ،پھر سے سو گیا ساحلّ اوراک زمانہ ہے اودھم مچائے بیٹھا ہے