یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں تو آ کے جا بھی چکا ہے میں انتظار میں ہوںمکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوںدر فصیل کھلا یا پہاڑ سر سے ہٹا میں اب گری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں ہوںبس اتنا ہوش ہے مجھ کو کہ اجنبی ہیں سب رکا ہوا ہوں سفر میں کسی دیار میں ہوںمیں ہوں بھی اور نہیں بھی عجیب بات ہے یہ یہ کیسا جبر ہے میں جس کے اختیار میں ہوں دیکھ شجر چاند اور دیواریں یہ ہوا خزاں کی ہے سر پر شب بہار میں ہوں
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیںتیغ بازی کا شوق اپنی جگہ آپ تو قتل عام کر رہے ہیںداد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیںہم ہیں مصروف انتظام مگر جانے کیا انتظام کر رہے ہیںہے وہ بے چارگی کا حال کہ ہم ہر کسی کو سلام کر رہے ہیںایک قتالہ چاہیے ہم کو ہم یہ اعلان عام کر رہے ہیںکیا بھلا ساغر سفال کہ ہم ناف پیالے کو جام کر رہے ہیںہم تو آئے تھے عرض مطلب کو اور وہ احترام کر رہے ہیںنہ اٹھے آہ کا دھواں بھی کہ وہ کوئے دل میں خرام کر رہے ہیںاس کے ہونٹوں پہ رکھ کے ہونٹ اپنے بات ہی ہم تمام کر رہے ہیںہم عجب ہیں کہ اس کے کوچے میں بے سبب دھوم دھام کر رہے ہیں