نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں عجب سفر ہے کہ بس ہم سفر کو دیکھتے ہیںنہ پوچھ جب وہ گزرتا ہے بے نیازی سے تو کس ملال سے ہم نامہ بر کو دیکھتے ہیںترے جمال سے ہٹ کر بھی ایک دنیا ہے یہ سیر چشم مگر کب ادھر کو دیکھتے ہیںعجب فسون خریدار کا اثر ہے کہ ہم اسی کی آنکھ سے اپنے ہنر کو دیکھتے ہیںفرازؔ در خور سجدہ ہر آستانہ نہیں ہم اپنے دل کے حوالے سے در کو دیکھتے ہیں