اندھیری رات تھی آ نکھیں اداس تھیں
مسافر جاگ چکا تھا پر راہیں اداس تھیں
وہ بھنور ایک دن ہماری تقدیر میں بھی اتر آ یا
اس کی تباہکاریوں کی وہ یادیں اداس تھیں
موسم بہار میں جب بلبل مطلوب نہ ہو سکی
گلاب کو لگتیں تمام شاخیں اداس تھیں
درد اپنے آ خری مراحل طے کر نے لگا جب
الوداع کہتے ہوئے اسے وہاں کی فضا