اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا رنج راحت فزا نہیں ہوتابے وفا کہنے کی شکایت ہے تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتاذکرِ اغیار سے ہوا معلوم حرفَ ناصح برا نہیں ہوتاکس کو ہے ذوقَ تلخ کامی لیک جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتاتم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتااس نے کیا جانے کیا کیا لے کر دل کسی کام کا نہیں ہوتاامتحاں کیجیے مرا جب تک شوق زور آزما نہیں ہوتاایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتاآہ طولِ امل ہے روز افزوں گرچہ اِک مدعا نہیں ہوتانارسائی سے دم رکے تو رکے میں کسی سے خفا نہیں ہوتاتم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتاحالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتارحم کر خصم، جانِ غیر نہ ہو سب کا دل ایک سا نہیں ہوتادامن اس کا جو ہے دراز تو ہو دستِ عاشق، رسا نہیں ہوتاچارہ دل سوائے صبر نہیں سو تمھارے سوا نہیں ہوتاصبر تھا اک مونس ہجراں سو وہ مدت سے اب نہیں ہوتاکیوں سنے عرض مضطر اے مومن صنم آخر خدا نہیں ہوتامومن خان مومن