ہر خوشی تیرے نام کی, میں نے وار دی تجھ پہ زندگی میں نے اک پیادے نے مات شَہہ کو دی چال ایسی بھی اک چلی میں نے وقت بھی مختصر تھا اُس کے پاس بات بھی مختصر سی کی میں نے جو خلوص و وفا کے پیکر ہیں کم ہی دیکھے ہیں آدمی میں نے آنکھ نے جب کبھی بغاوت کی تیری تصویر دیکھ لی میں نے کاش پوچھے کبھی مجھے آ ک
قرب جاناں کا نہ مے خانے کا موسم آیا پھر سے بے صرفہ اجڑ جانے کا موسم آیا کنج غربت میں کبھی گوشۂ زنداں میں تھے ہم جان جاں جب بھی ترے آنے کا موسم آیا اب لہو رونے کی خواہش نہ لہو ہونے کی دل زندہ ترے مر جانے کا موسم آیا کوچۂ یار سے ہر فصل میں گزرے ہیں مگر شاید اب جاں سے گزر جانے کا موسم آیا کوئی زنجیر کوئی حرف خرد لے آیا فصل گل آئی کہ دیوانے کا موسم آیا سیل خوں شہر کی گلیوں میں در آیا ہے فرازؔ اور تو خوش ہے کہ گھر جانے کا موسم آیا 🖤🥀