جو سوچتا ہوں اگر وہ بیان ہو جائے تو پانی پانی یہ سارا جہان ہو جائےگلہ ہے آنکھ سے ، اُن کو زبان سے ہے گلہ قلم کو حکم ہے وہ بے زبان ہو جائےوہاں پہ راستہ ہجرت ہی صرف ہوتا ہے جہاں زمین یہ خود آسمان ہو جائےتو خود ہی سوچ ذرا حال اس گلستاں کا ِخزاں کے ساتھ جہاں باغبان ہو جائے
دردِ دِل میں کمی نہ ھو جائے دوستی ، دشمنی نہ ھو جائے تم میری دوستی کا دَم نہ بھرو آسماں مُدعی نہ ھو جائے بیٹھتا ھے ھمیشہ رِندوں میں کہیں زاھد ولی نہ ھو جائے طالعِ بد وھاں بھی ساتھ نہ دے موت بھی زندگی نہ ھو جائے اپنی خُوئے وفا سے ڈرتا ھُوں عاشقی بندگی نہ ھو جائے کہیں بیخودؔ تمہاری خُودداری دشمنِ بے خودی نہ ھو جائے